امت کو تلقین
علم کا حصول
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس خذوا من العلم قبل ان یقبض العلم وقبل ان یرقع العلم وقد کان انزل اللہ عزوجل یا ایہا الذین آمنوا لا تسالوا عن اشیاء ان تبدلکم تسؤکم وان تسالوا عنہا حین ینزل القرآن تبد لکم عفا اللہ عنہا واللہ غفور حلیم قال فکنا قد کرہنا کثیرا من مسالتہ واتقینا ذاک حین انزل اللہ علی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فاتینا اعرابیا فرشوناہ برداء قال فاعتم بہ حتی رایت حاشیۃ البرد خارجۃ من حاجبہ الایمن قال ثم قلنا لہ سل النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال فقال لہ یا نبی اللہ کیف یرفع العلم منا وبین اظہرنا المصاحف وقد تعلمنا ما فیہا وعلمنا نساء نا وذرارینا وخدمنا قال فرفع النبی صلی اللہ علیہ وسلم راسہ وقد علت وجہہ حمرۃ من الغضب قال فقال ای ثکلتک امک ہذہ الیہود والنصاری بین اظہرہم المصاحف لم یصبحوا یتعلقوا بحرف مما جاء تہم بہ انبیاؤہم الا وان من ذہاب العلم ان یذہب حملتہ ثلاث مرار۔
(مسند احمد، ۲۱۲۵۹)
’’اے لوگو! علم حاصل کر لو اس سے قبل کہ علم کو قبض کر لیا جائے اور اٹھا لیا جائے۔ (ابو امامہ کہتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کر رکھا تھا کہ اے ایمان والو، ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو اگر تمھارے لیے ظاہر کر دی گئیں تو تمھیں نقصان دیں گی اور اگر تم ان کے بارے میں پوچھو گے تو جب تک قرآن نازل ہو رہا ہے، وہ تمھیں بتائی جاتی رہیں گی۔ اللہ نے خود ہی ان کو بیان نہیں کیا اور اللہ معاف کرنے والا بردبار ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت اتاری تو اس کے بعد ہم آپ سے بہت سی باتیں پوچھنے سے گریز کرنے لگے۔ (جب آپ نے یہ فرمایا کہ علم حاصل کر لو اس سے قبل کہ علم کو قبض کر لیا جائے تو) ہم ایک بدو کے پاس گئے اور اسے ایک چادر کی رشوت دی۔ اس نے اس چادر کا عمامہ سر پر باندھ لیا ، یہاں تک کہ مجھے چادر کا کنارہ اس کی دائیں ابرو کی طرف سے نکلا ہوا دکھائی دیا۔ پھر ہم نے اس سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو۔ اس نے کہا کہ اے اللہ کے نبی، ہمارے اندر سے علم کیسے اٹھا لیا جائے گا جبکہ قرآن مجید کے مصحف ہمارے مابین ہوں گے اور ہم نے ان کو سیکھ رکھا ہوگا اور اپنی عورتوں اور بچوں اور اپنے خادموں کو بھی اس کی تعلیم دے رکھی ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور آپ کے چہرے پر غصے کی وجہ سے سرخی نمایاں تھی۔ آپ نے فرمایا، تمھاری ماں تم سے محروم ہو جائے، یہود ونصاریٰ کو دیکھو، ان کے مصاحف ان کے پاس موجود ہیں لیکن ان کے انبیا جو تعلیمات لائے تھے، وہ ان میں سے کسی بات پر بھی قائم نہیں رہے۔ سنو، علم کے چلے جانے کی صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ علم کے حامل رخصت ہو جائیں۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی۔‘‘
امیر کی اطاعت
ام الحصین رضی اللہ عنہ: ان امر علیکم عبد مجدع حسبتہا قالت اسود یقودکم بکتاب اللہ تعالیٰ فاسمعوا لہ واطیعوا۔
(مسلم، ۲۲۸۷)
’’اگر کسی کٹے ہوئے کان والے سیاہ فام غلام کو بھی تم پر امیر مقرر کیا جائے جو کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔‘‘
امت کے لیے خاص دعا
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: الا ان کل نبی قد مضت دعوتہ الا دعوتی فانی قد ادخرتہا عند ربی الی یوم القیامۃ۔
(طبرانی المعجم الکبیر، ۷۶۳۲۔ مسند الشامیین، ۱۲۴۲)
’’سنو! ہر نبی نے اپنی مخصوص دعا (دنیا ہی میں) مانگ لی ہے، جبکہ میں نے اپنی خاص دعا مانگنے کا حق قیامت کے دن تک کے لیے اپنے رب کے پاس محفوظ رکھا ہوا ہے۔‘‘
قریش کو خاص ہدایت
عداء بن خالد بن عمرو رضی اللہ عنہ: یا معشر قریش لا تجیؤنی بالدنیا تحملونہا علی اعناقکم ویجئ الناس بالآخرۃ فانی لا اغنی عنکم من اللہ شیئا۔
(المعجم الکبیر، ۱۸/۱۲، رقم ۱۶)
’’اے گروہ قریش! ایسا نہ ہو کہ (قیامت کے دن) تم اپنی گردنوں پر دنیا کو اٹھائے ہوئے آؤ اور دوسرے لوگ آخرت کا سامان لے کر آئیں، کیونکہ میں اللہ کی پکڑ کے مقابلے میں تمھارے کچھ کام نہ آؤں گا۔‘‘
علاج معالجہ
اسامۃ بن شریک: قالوا یا رسول اللہ انتداوی من کذا وکذا مرتین قال نعم تداووا فان اللہ عز وجل لم ینزل داء الا انزل لہ شفاء غیر داء واحد الہرم۔
(المعجم الکبیر، ۴۸۲، ۴۸۴)
’’لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا ہم فلاں فلاں چیز کو دوا کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں؟ دو مرتبہ یہ سوال کیا۔ آپ نے فرمایا، ہاں، دوا استعمال کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی بیماری نازل کی ہے، اس کی شفا بھی اتاری ہے، سوائے ایک بیماری یعنی بڑھاپے کے۔‘‘
جائز اور ناجائز عطیہ
ابو الزوائد رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس خذو العطاء ما کان عطاء فاذا تجاحفت قریش علی الملک وکان عن دین احدکم فدعوہ۔
(ابو داؤد، ۲۵۶۹، ۲۵۷۰)
’’اے لوگو! جب تک (حکمرانوں کی طرف سے ملنے والا) عطیہ، عطیہ رہے، تب تک لیتے رہو۔ پھر جب قریش بادشاہت پر آپس میں جنگ وجدال کرنے لگیں اور عطیہ تمھارے دین وایمان کی قیمت پر ملے تو اسے لینا چھوڑ دو۔‘‘
ابو الزوائد رضی اللہ عنہ: خذوا العطاء ما کان عطاء فاذا تجاحفت قریش الملک فی ما بینہا وکان العطاء رشوۃ علی دینکم فلا تاخذوہ۔
(ابوبکر الشیبانی، الآحاد والمثانی، ۲۶۴۶)
’’جب تک عطیہ، عطیہ رہے، تب تک لیتے رہو۔ پھر جب قریش بادشاہت پر آپس میں جنگ وجدال کرنے لگیں اور عطیہ دین وایمان کے معاملے میں رشوت کے طور پر ملے تو مت لو۔‘‘
سوال کا حق کسے ہے؟
حبشی بن جنادۃ السلولی رضی اللہ عنہ: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع بعرفۃ واتاہ اعرابی فاخذ بطرف رداء ہ فسالہ ایاہ فاعطاہ فعند ذلک حرمت المسالۃ وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان المسالۃ لا تحل لغنی ولا لذی مرۃ سوی الا لذی فقر مدقع او غرم مفظع ومن سال الناس لیشتری مالہ کان خموشا فی وجہہ یوم القیامۃ ورضفا یاکلہ من جہنم فمن شاء فلیقل ومن شاء فلیکثر۔
(الآحاد والمثانی، ۱۵۱۲)
’’میں نے حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، ایک اعرابی آیا اور اس نے آپ کی چادر کا کنارہ پکڑا اور آپ سے سوال کیا۔ آپ نے اس کو کچھ دے دیا۔ اس موقع پر سوال کرنا ممنوع قرار دیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوال کرنا نہ کسی مال دار کے لیے حلال ہے اور نہ کسی تنومند اور صحت مند شخص کے لیے۔ ہاں شدید غربت زدہ یا قرض کے بھاری بوجھ تلے دبا ہوا شخص سوال کر سکتا ہے۔ اور جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرے گا، اس کا مانگنا قیامت کے دن اس کے چہرے پر زخموں کی صورت میں نمایاں ہوگا اور اسے جہنم کے گرم اور تپتے ہوئے پتھر کھانے پڑیں گے۔ پس جو چاہے کم سوال کرے اور جو چاہے زیادہ۔‘‘