اسلامی شریعت

جاہلی اقدار کا خاتمہ

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: الا کل شئ من امر الجاہلیۃ تحت قدمی موضوع۔
(مسلم، ۲۱۳۷)
’’آگاہ رہو! جاہلیت کا ہر کام میں اپنے ان دونوں قدموں کے نیچے دفن کر رہا ہوں۔‘‘

عم ابی حرۃ الرقاشی رضی اللہ عنہ: الا وان کل دم ومال وماثرۃ کانت فی الجاہلیۃ تحت قدمی ہذہ الی یوم القیامۃ۔
(مسند احمد، ۱۹۷۷۴)
’’آگاہ رہو! جاہلیت کے دور کا ہر خون، (سود کی قسم کا) ہر مال اور فخر ومباہات کی ہر بات قیامت تک کے لیے میرے ان دو قدموں کے نیچے دفن کر دی گئی ہے۔‘‘

عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ: الا وان کل دم کان فی الجاہلیۃ موضوع واول دم وضع من دماء الجاہلیۃ دم الحارث بن عبد المطلب کان مسترضعا فی بنی لیث فقتلتہ ہذیل۔
(ترمذی، ۳۰۱۲)
’’آگاہ رہو! جاہلیت کے زمانے کا ہر خون معاف کیا جاتا ہے، اور زمانہ جاہلیت کے خونوں میں سے پہلا خون جس کو معاف کیا جاتا ہے، وہ حارث بن عبد المطلب کا خون ہے۔ (راوی بتاتے ہیں کہ) حارث کو دودھ پلانے کے لیے بنو لیث کے ہاں بھیجا گیا تھا جہاں اسے بنو ہذیل نے قتل کر دیا۔‘‘
(جابر بن عبد اللہ (مسلم، ۲۱۳۷) عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴) عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶))

عبادت و اطاعت

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: ایہا الناس لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم فاعبدوا ربکم وصلوا خمسکم وصوموا شہرکم وادوا زکاۃ اموالکم طیبۃ بہا انفسکم واطیعوا ولاۃ امرکم تدخلوا جنۃ ربکم۔
(مسند الشامیین، ۵۴۳۔ الآحاد والمثانی، ۲۷۷۹)
’’اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمھارے بعد کوئی امت نہیں۔ پس اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، رمضان کے مہینے کے روزے رکھو، پوری خوش دلی سے اپنے مالوں کی زکاۃ ادا کرو اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو۔ ایسا کرو گے تو جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
(ابو قتیلۃ (طبرانی، مسند الشامیین، ۱۱۷۳۔ ابوبکر الشیبانی، الآحاد والمثانی، ۲۷۷۹))

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: الا لعلکم لا ترونی بعد عامکم ہذا الا لعلکم لا ترونی بعد عامکم ہذا الا لعلکم لا ترونی بعد عامکم ہذا فقام رجل طویل کانہ من رجال شنوء ۃ فقال یا نبی اللہ فما الذی نفعل فقال اعبدوا ربکم ]وفی روایۃ: اتقوا اللہ ربکم[ وصلوا خمسکم وصوموا شہرکم وحجوا بیتکم وادوا زکاۃ اموالکم طیبۃ بہا انفسکم (واطیعوا ذا امرکم) تدخلوا جنۃ ربکم عز وجل۔
(مسند احمد، ۲۱۲۳۰۔ ترمذی، ۵۵۹)
’’سنو! ممکن ہے اس سال کے بعد تم مجھے نہ دیکھ سکو۔ سنو! ممکن ہے اس سال کے بعد تم مجھے نہ دیکھ سکو۔ سنو! ممکن ہے اس سال کے بعد تم مجھے نہ دیکھ سکو۔ ایک لمبے قد کا شخص، جو قبیلہ شنوء ۃ کا فرد لگتا تھا، کھڑا ہوا اور اس نے کہا، اے اللہ کے نبی، پس ہم کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: اپنے رب کی عبادت کرو (ایک روایت میں ہے کہ اپنے رب سے ڈرتے رہو)، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، رمضان کے مہینے کے روزے رکھو، بیت اللہ کا حج کرو، پوری خوش دلی سے اپنے مالوں کی زکاۃ ادا کرو اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو۔ ایسا کرو گے تو جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘

قرۃ بن دعموص رضی اللہ عنہ: قال الفینا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع فقلنا یا رسول اللہ ما تعہد الینا قال اعہد الیکم ان تقیموا الصلاۃ وتؤتو ا الزکاۃ وتحجوا البیت الحرام وتصوموا رمضان فان فیہ لیلۃ خیر من الف شہر وتحرموا دم المسلم ومالہ والمعاہد الا بحقہ وتعتصموا باللہ والطاعۃ۔
(بیہقی، شعب الایمان، ۵۳۳۳۔ ابن حجر، الاصابہ، ۵/۴۳۵)
’’حجۃ الوداع کے موقع پر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تو ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ، آپ ہمیں کس چیز کی تاکید فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا، میں تمھیں اس بات کی تاکید کرتا ہوں کہ تم نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، بیت الحرام کا حج کرو، رمضان کے روزے رکھو کیونکہ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اور تم مسلمان اور معاہدہ کافر کی جان اور اس کے مال کو حرام سمجھو، الا یہ کہ کسی حق کے تحت اس سے تعرض کیا جائے، اور تم اللہ کی فرماں برداری اور اس کی اطاعت پر قائم رہو۔‘‘

سود کا خاتمہ

عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ: الا وان کل ربا فی الجاہلیۃ موضوع لکم رؤوس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون غیر ربا العباس بن عبد المطلب فانہ موضوع کلہ۔
(ترمذی، ۳۰۱۲)
’’آگاہ رہو! زمانہ جاہلیت کا ہر سود کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ تم صرف اپنے اصل مال کے حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ ہاں عباس بن عبد المطلب کا لوگوں کے ذمے جو سودی قرض ہے، وہ سارے کا سارا معاف کیا جاتا ہے۔‘‘
(جابر بن عبد اللہ (مسلم، ۲۱۳۷) عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴) ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶))

حرام اعمال سے بچنا

سلمۃ بن قیس الاشجعی رضی اللہ عنہ: الا انما ہن اربع ان لا تشرکوا باللہ شیئا ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق ولا تزنوا ولا تسرقوا۔
(مسند احمد، ۱۸۲۲۰)
’’آگاہ رہو! ان چار باتوں سے بچنا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، خدا کی حرام کردہ کسی جان کو ناحق قتل نہ کرنا، زنا نہ کرنا اور چوری نہ کرنا۔‘‘

وراثت کا حکم

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: ان اللہ قد اعطی لکل ذی حق حقہ فلا وصیۃ لوارث۔
(ترمذی، ۲۰۴۶)
’’اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لیے اب کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی۔‘‘
(انس بن مالک (الاحادیث المختارۃ، ۲۱۴۷) عمرو بن خارجۃ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۱۱) (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ۲/۱۸۳))

بدکاری کی سزا

عمرو بن خارجۃ رضی اللہ عنہ: الولد للفراش وللعاہر الحجر ومن ادعی الی غیر ابیہ او تولی غیر موالیہ فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللہ منہ صرفا ولا عدلا۔
(ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۱۱۔ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ۲/۱۸۳)
’’بچے کا نسب اسی سے ثابت ہوگا جس کے نکاح میں عورت ہوگی، جبکہ بدکاری کرنے والے کا بچے پر کوئی حق نہیں، اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔ جو شخص اپنی نسبت اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اور جو غلام اپنی نسبت اپنے آقاؤں کے علاوہ کسی اور کی طرف کرے گا، اس پر اللہ اور فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے کوئی معاوضہ یا تاوان قبول نہیں کریں گے۔‘‘
(ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ (ترمذی، ۲۰۴۶) انس بن مالک (الاحادیث المختارۃ، ۲۱۴۷))

جہاد فی سبیل اللہ

سفیان بن وہب الخولانی: روحۃ فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما علیہا وغدوۃ فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما علیہا۔
(مسند احمد، ۱۶۸۷۷)
’’اللہ کے راستے میں ایک شام گزارنا دنیا اور جو کچھ اس میں پایا جاتا ہے، سب سے بہتر ہے، اور اللہ کے راستے میں ایک صبح گزارنا دنیا اور جو کچھ اس میں پایا جاتا ہے، سب سے بہتر ہے۔‘‘

جان و مال کی حرمت

ابوبکرۃ نفیع بن الحارث رضی اللہ عنہ: ای شہر ہذا؟ قلنا اللہ ورسولہ اعلم فسکت حتی ظننا انہ سیسمیہ بغیر اسمہ، قال الیس ذو الحجۃ؟ قلنا بلی، قال فای بلد ہذا؟ قلنا اللہ ورسولہ اعلم فسکت حتی ظننا انہ سیسمیہ بغیر اسمہ، قال الیس البلدۃ؟ قلنا بلی، قال فای یوم ہذا؟ قلنا اللہ ورسولہ اعلم، فسکت حتی ظننا انہ سیسمیہ بغیر اسمہ، قال الیس یوم النحر؟ قلنا بلی، قال فان دماء کم واموالکم قال محمد واحسبہ قال واعراضکم (وابشارکم) علیکم حرام کحرمۃ یومکم ہذا فی بلدکم ہذا فی شہرکم ہذا۔
(بخاری، ۴۰۵۴، ۶۵۵۱)
’’(لوگو) یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ آپ اس مہینے کا نام کچھ اور رکھ دیں گے۔ آپ نے فرمایا: کیا یہ ذو الحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا، جی ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ آپ اس کا نام کچھ اور رکھ دیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا یہ بلد حرام نہیں ہے؟ ہم نے کہا، جی ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ آپ اس کا نام کچھ اور رکھ دیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا یہ یوم النحر نہیں ہے؟ ہم نے کہا، جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ تمھاری جانیں، تمھارے مال، تمھاری آبروئیں اور تمھارے چمڑے تم پر (آپس میں) اسی طرح حرام ہیں جیسے اس شہر اور اس مہینے میں تمھارے اس دن کی حرمت ہے۔‘‘
(عبد اللہ بن عمر (بخاری، ۶۲۸۷) عبد اللہ ابن عباس (بخاری، ۱۶۲۳) ابو سعید (ابن ماجہ، ۳۹۲۱۔ مسند احمد، ۲۲۳۹۱۔ بیہقی، شعب الایمان، ۵۱۳۷، ج ۴، ص ۲۸۹) جابر بن عبد اللہ (مسلم، ۲۱۳۷۔ مسند احمد، ۱۴۴۶۱) نبیط بن شریط (مسند احمد، ۱۷۹۷۳۔ الآحاد والمثانی، ۱۲۹۸) حذیم السعدی (مسند احمد، ۱۸۱۹۸۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۴۰۰۲) عبد اللہ بن مسعود (ابن ماجہ، ۳۰۴۸) عداء بن خالد الکلابی (مسند احمد، ۱۹۴۴۷) عمرو بن الاحوص (ترمذی، ۲۰۸۵، ۳۰۱۲) مرۃ عن رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم (مسند احمد، ۲۲۳۹۹۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۴۰۹۹) عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴) جبیر بن مطعم (دارمی، ۲۲۹) ابو مالک اشعری (طبرانی، مسند الشامیین، ۱۶۶۷) عمار بن یاسر (طبرانی فی الکبیر والاوسط، مجمع الزوائد ۳/۲۶۹) حارث بن عمرو (طبرانی، المعجم الکبیر، ۳۳۵۱) وابصۃ بن معبد الجہنی (طبرانی، المعجم الاوسط، ۴۱۵۶) عبد اللہ بن الزبیر (طبرانی فی الاوسط والکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۰) عبادۃ بن عبد اللہ بن الزبیر (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۰) حجیر (مسند الحارث (زوائد الہیثمی)، ۲۷۔ الآحاد والمثانی، ۱۶۸۲) ابو امامۃ صدی بن عجلان الباہلی (طبرانی، المعجم الکبیر، ۷۶۳۲۔ مسند الشامیین، ۱۲۴۲) براء بن عازب وزید بن ارقم (طبرانی فی الکبیر والاوسط، مجمع الزوائد ۳/۲۷۱) کعب بن عاصم الاشعری (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۲) عبد الاعلیٰ بن عبد اللہ (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۳) سراء بنت نبہان (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۴۶۳۔ طبرانی، المعجم الاوسط، ۲۴۳۰) جمرۃ بنت قحافۃ (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۳) ابو غادیۃ (ابن سعد ۲/۱۸۴) سفیان بن وہب الخولانی(مسند احمد، ۱۶۸۷۷))

فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ: فدماؤکم واموالکم واعراضکم علیکم حرام مثل ہذا الیوم وہذہ البلدۃ الی یوم تلقونہ وحتی دفعۃ دفعہا مسلم مسلما یرید بہ سوء ا حراما۔
(مسند البزار، ۳۷۵۲)
’’تمھارے خون اور مال اور آبروئیں تم پر اس دن اور اس شہر کے مانند حرام ہیں، اس دن تک جب تم اپنے رب کے سامنے پیش ہوگے، حتیٰ کہ اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو ناجائز طور پر اذیت پہنچانے کے لیے دھکا بھی دیتا ہے تو وہ بھی حرام ہے۔‘‘

ابو مالک کعب بن عاصم الاشعری رضی اللہ عنہ: المومن حرام علی المومن کحرمۃ ہذا الیوم لحمہ علیہ حرام ان یاکلہ بالغیب ویغتابہ وعرضہ علیہ حرام ان یخرقہ ووجہہ علیہ حرام ان یلطمہ ودمہ علیہ حرام ان یسفکہ ومالہ علیہ حرام ان یظلمہ واذاہ علیہ حرام وہو علیہ حرام ان یدفعہ دفعا۔
(طبرانی، مسند الشامیین، ۱۶۶۷)
’’مسلمان کی حرمت مسلمان کے لیے اسی طرح ہے جیسے آج کے دن کی۔ ایک مسلمان کے لیے دوسری مسلمان کی غیبت کرتے ہوئے اس کا گوشت کھانا حرام ہے۔ اس کی عزت کو پامال کرنا حرام ہے۔ اس کے چہرے پر تھپڑ مارنا حرام ہے۔ اس کا خون بہانا حرام ہے۔ ظلم کرتے ہوئے اس کا مال لے لینا حرام ہے۔ اس کو اذیت دینا حرام ہے اور اس کو دھکا تک دینا حرام ہے۔‘‘