تبلیغ و تفہیم

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ: الا لیبلغ شاہدکم غائبکم لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم۔
(مسند الرویانی، ۱۴۱۶، ۲/۴۱۲۔ مسند عبد بن حمید، ۸۵۸، ۱/۲۷۰)
’’تم میں سے جو موجود ہیں، وہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں۔ نہ میرے بعد کوئی نبی ہے اور نہ تمھارے بعد کوئی امت۔‘‘

ابوبکرۃ نفیع بن الحارث رضی اللہ عنہ: الا لیبلغ الشاہد الغائب فلعل بعض من یبلغہ ان یکون اوعی لہ من بعض من سمعہ۔
(بخاری، ۴۰۵۴)
’’سنو، جو موجود ہیں، وہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جن کو یہ باتیں پہنچیں، ان میں سے کچھ ان کی بہ نسبت ان کو زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والوں ہوں جنھوں نے براہ راست مجھ سے سنی ہیں۔‘‘
(عبد اللہ ابن عباس (بخاری، ۱۶۲۳) ابو سعید (مسند احمد، ۲۲۳۹۱۔ بیہقی، شعب الایمان، ۵۱۳۷، ج ۴، ص ۲۸۹) عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴) حارث بن عمرو (طبرانی فی الکبیر والاوسط، مجمع الزوائد ۳/۲۶۹) وابصۃ بن معبد الجہنی (طبرانی فی الاوسط وابو یعلی، مجمع الزوائد ۳/۲۶۹) حجیر (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۰) حجیر (مسند الحارث (زوائد الہیثمی)، ۲۷۔ الآحاد والمثانی، ۱۶۸۲) سراء بنت نبہان (المعجم الاوسط، ۲۴۳۰))

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ: ایہا الناس انی واللہ لا ادری لعلی لا القاکم بعد یومی ہذا بمکانی ہذا فرحم اللہ من سمع مقالتی الیوم فوعاہا فرب حامل فقہ ولا فقہ لہ ورب حامل فقہ الی من ہو افقہ منہ۔
(دارمی، ۲۲۹۔ مسند ابی یعلیٰ، ۷۴۱۳۔ مستدرک حاکم، ۲۹۴)
’’اے لوگو! بخدا مجھے معلوم نہیں کہ آج کے بعد میں ا س جگہ تم سے مل سکوں گا یا نہیں۔ پس اللہ اس شخص پر رحمت کرے جس نے آج کے دن میری باتیں سنیں اور انھیں یاد کیا، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں سمجھ داری کی باتیں یاد ہوتی ہیں لیکن انھیں ان کی سمجھ حاصل نہیں ہوتی۔ اور بہت سے لوگ سمجھ داری کی باتوں کو یاد کر کے ایسے لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں۔‘‘
عبد اللہ ابن عمر (مسند الشامیین، ۵۰۸۔ الکفایۃ فی علم الروایۃ، ۱/۱۹۰) ابو سعید الخدری (رواہ البزار، مجمع الزوائد۱/۱۳۷۔ الترغیب والترہیب ۱/۲۳) انس بن مالک (المعجم الاوسط، ۹۴۴۴) ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۸