باہمی حقوق
حسن اخلاق
اسامۃ بن شریک: قالوا یا رسول اللہ ما خیر ما اعطی الناس قال خلق حسن۔
(المعجم الکبیر، ۴۸۲)
’’لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ، لوگوں کو ملنے والی چیزوں میں سے بہترین چیز کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا: اچھا اخلاق۔‘‘
ماں کا حق
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: کان اول ما تفوہ بہ ان قال ان اللہ عزوجل یوصیکم بامہاتکم ثم حمد اللہ عزوجل ثم قال ما شاء اللہ ان یقول۔
(المعجم الکبیر، ۷۶۴۷)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلی بات جو فرمائی، وہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ہیں۔ پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور اس کے بعد جو ارشاد فرمانا چاہا، فرمایا۔‘‘
خاوند کا حق
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: لا تنفق امراۃ شیئا من بیت زوجہا الا باذن زوجہا قیل یا رسول اللہ ولا الطعام قال ذاک افضل اموالنا۔
(ترمذی، ۶۰۶، ۲۰۴۶)
’’کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر سے کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے۔ کہا گیا کہ یا رسول اللہ، کھانا بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ تو ہمارا سب سے بہترین مال ہے (اس لیے اس کو خرچ کرنے کی بھی اجازت نہیں)۔‘‘
(انس بن مالک (المقدسی، الاحادیث المختارۃ، ۲۱۴۷))
عورتوں کے حقوق
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: فاتقوا اللہ فی النساء فانکم اخذتموہن بامان اللہ واستحللتم فروجہن بکلمۃ اللہ ولکم علیہن ان لا یوطئن فرشکم احدا تکرہونہ فان فعلن ذلک فاضربوہن ضربا غیر مبرح ولہن علیکم رزقہن وکسوتہن بالمعروف۔
(مسلم، ۲۱۳۷)
’’پس عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو، کیونکہ تم نے انھیں اللہ کی امان کے تحت اپنے نکاح میں لیا ہے اور خدا کی اجازت کے تحت ان کی شرم گاہوں سے فائدہ اٹھانا تمھارے لیے حلال ہے۔ تمھارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ کسی کو تمھارے بستر پامال نہ کرنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ پھر اگر وہ ایسا کریں تو تم انھیں اتنا مار سکتے ہو کہ چوٹ کا نشان نہ پڑے۔ اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم معروف کے مطابق ان کا رزق اور پوشاک انھیں مہیا کرو۔‘‘
(عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴))
عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ: الا واستوصوا بالنساء خیرا فانما ہن عوان عندکم لیس تملکون منہن شیئا غیر ذلک الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ فان فعلن فاہجروہن فی المضاجع واضربوہن ضربا غیر مبرح فان اطعنکم فلا تبغوا علیہن سبیلا الا ان لکم علی نساء کم حقا ولنساء کم علیکم حقا فاما حقکم علی نساء کم فلا یوطئن فرشکم من تکرہون ولا یاذن فی بیوتکم لمن تکرہون الا وان حقہن علیکم ان تحسنوا الیہن فی کسوتہن وطعامہن۔
(ترمذی، ۳۰۱۲)
’’سنو، عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو۔ وہ تمھارے پاس امانت ہیں اور تم اس کے علاوہ ان پر کسی قسم کا حق نہیں رکھتے، سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوں۔ اگر وہ ایسا کریں تو انھیں ان کے بستروں میں الگ کر دو اور انھیں اتنا مار سکتے ہو کہ چوٹ کا نشان نہ پڑے۔ پھر اگر وہ تمھاری اطاعت کریں تو ان پر (زیادتی کی) راہ نہ ڈھونڈو۔ آگاہ رہو! تمھارے بھی تمھاری عورتوں پر حقوق ہیں اور تمھاری عورتوں کے بھی تم پر حقوق ہیں۔ تمھارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ کسی شخص کو تمھارے بستر پامال نہ کرنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو اور نہ تمھارے پسندیدہ افراد کو تمھارے گھروں میں آنے کی اجازت دیں۔ اور سنو، ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم دستور کے مطابق ان کا رزق اور پوشاک انھیں مہیا کرنے میں بہترین طریقہ اختیار کرو۔‘‘
(عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶))
رشتہ داروں کے حقوق
سلیم بن اسود عن رجل من بنی یربوع: ید المعطی العلیا امک واباک واختک واخاک ثم ادناک فادناک۔
(مسند احمد، ۱۶۰۱۸)
’’دینے والے کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے۔ پہلے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر خرچ کرو، پھر درجہ بدرجہ اپنے قریبی رشتہ داروں پر۔‘‘
(اسامۃ بن شریک(المعجم الکبیر، ۴۸۴۔ حجۃ الوداع، ۱۹۱، ۱/۲۱۵۔ معجم الشیوخ، ۳۱))
پڑوسیوں کے حقوق
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: اوصیکم بالجار فاکثر حتی قلت انہ سیورثہ۔
(طبرانی، مسند الشامیین، ۸۲۳)
’’میں تمھیں پڑوسی کا خیال رکھنے کی تاکید کرتا ہوں۔ (ابو امامہ کہتے ہیں کہ) آپ نے یہ بات اتنی مرتبہ کہی کہ مجھے خیال ہوا کہ آپ پڑوسی کو وراثت میں بھی حق دار قرار دیں گے۔‘‘
غلاموں / ماتحتوں کے بارے میں تلقین
یزید بن جاریۃ رضی اللہ عنہ: ارقاء کم ارقاء کم ارقاء کم اطعموہم مما تاکلون واکسوہم مما تلبسون فان جاء وا بذنب لا تریدون ان تغفروہ فبیعوا عباد اللہ ولا تعذبوہم۔
(مسند احمد، ۱۵۸۱۳۔ مصنف عبد الرزاق، ۱۷۹۳۵)
’’اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ جو تم خود کھاتے ہو، انھیں بھی کھلاؤ۔ جو تم خود پہنتے ہو، انھیں بھی پہناؤ۔ اگر ان سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو جائے جسے تم معاف نہیں کرنا چاہتے تو اللہ کے ان بندوں کو بیچ دو لیکن انھیں عذاب نہ دو۔‘‘