عدل و انصاف

ظلم و زیادتی

عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ: الا لا یجنی جان الا علی نفسہ الا لا یجنی والد علی ولدہ ولا ولد علی والدہ۔
(ترمذی، ۳۰۱۲)
’’خبردار! کوئی بھی زیادتی کرنے والا اس کا خمیازہ خود ہی بھگتے گا۔ سنو، نہ باپ کی زیادتی کا بدلہ اس کے بیٹے سے لیا جائے اور نہ بیٹے کی زیادتی کا بدلہ اس کے باپ سے۔‘‘

حذیفۃ بن الیمان رضی اللہ عنہ: لا یؤخذ الرجل بجریرۃ اخیہ ولا بجریرۃ ابیہ۔
(المعجم الاوسط، ۴۱۶۶)
’’کسی شخص کو اس کے بھائی یا باپ کے جرم میں نہ پکڑا جائے۔‘‘
(عبد اللہ بن مسعود (رواہ البزار، مجمع الزوائد ۶/۲۸۳) اسود بن ثعلبۃ الیربوعی (الاستیعاب، ۱/۹۰))

سلیم بن اسود عن رجل من بنی یربوع: قال رجل یا رسول اللہ ہولاء بنو ثعلبۃ الذین اصابوا فلانا قال فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الا لا تجنی نفس علی اخری۔
(مسند احمد، ۱۶۰۱۸)
’’ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ! یہ بنو ثعلبہ ہیں جنھوں نے فلاں شخص کو قتل کر دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! کسی شخص کی زیادتی کا بدلہ دوسرے شخص سے نہ لیا جائے۔‘‘
(اسامۃ بن شریک (طبرانی، المعجم الکبیر، ۴۸۴۔ الصیداوی، معجم الشیوخ، ۳۱۔ ابن حزم، حجۃ الوداع، ۱/۲۱۵))

ناحق طریقے سے مال کھانا

عم ابی حرۃ الرقاشی رضی اللہ عنہ: اسمعوا منی تعیشوا، الا لا تظلموا، الا لا تظلموا، الا لا تظلموا، انہ لا یحل مال امرئ الا بطیب نفس منہ۔
(مسند احمد، ۱۹۷۷۴)
’’میری بات سنو، زندگی پا جاؤ گے۔ سنو، ظلم نہ کرو۔ سنو، ظلم نہ کرو۔ سنو، ظلم نہ کرو۔ کسی شخص کا مال اس کے دل کی خوشی کے بغیر لینا حلال نہیں۔‘‘
(عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۱۳۰۶) عمرو بن الاحوص (ترمذی، ۳۰۱۲))

عمرو بن یثربی الضمری: ولا یحل لاحد من مال اخیہ الا ما طابت بہ نفسہ فلما سمعہ قال ذلک قال یا رسول اللہ ارایت لو لقیت غنم ابن عمی فاخذت منہا شاۃ فاجتززتہا فعلی فی ذلک شئ؟ قال ان لقیتہا نعجۃ تحمل شفرۃ وزنادا بخبت الجمیش فلا تمسہا۔
(بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۱۳۰۵)
’’کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی کے مال میں سے کچھ لے، مگر وہی جس پر وہ دل سے راضی ہو۔ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اگر مجھے اپنے چچا زاد بھائی کی بکریوں کا ریوڑ دکھائی دے اور میں ان میں سے ایک بکری لے کر اس کو ذبح کر لوں تو کیا مجھے اس کا گناہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا، اگر تمھیں کوئی بکری وادی حمیش میں اس حال میں ملے کہ چھری اور (آگ جلانے کے لیے) پتھر بھی اس نے ساتھ اٹھا رکھے ہوں، تب بھی تم اس کو ہاتھ مت لگانا۔‘‘

تجارت میں خیانت

محمد بن مہران عن ابیہ: یا معشر التجار انی ارمی بہا بین اکتافکم لا تلقوا الرکبان لا یبع حاضر لباد۔
(ابن حجر، الاصابہ، ۸۶۳۸، ۶/۳۸۵)
’’اے تاجروں کے گروہ! میں یہ بات تمھیں علی الاعلان کہتا ہوں کہ (بازار کے نرخ سے کم قیمت پر مال خریدنے کے لیے) تم تجارتی قافلوں (کے شہر میں آنے سے پہلے ہی ان) سے مال نہ خرید لو۔ کوئی شہری کسی دیہاتی کا دلال نہ بنے۔‘‘
(کتب حدیث کی عام روایات میں یہ ارشاد حجۃ الوداع کے حوالے کے بغیر نقل کیا گیا ہے، جبکہ حجۃ الوداع کی تصریح ہمیں صرف اس روایت میں ملی ہے۔)

قسمیں اٹھانا

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: لا تالوا علی اللہ فانہ من تالی علی اللہ اکذبہ اللہ۔
(المعجم الکبیر، ۷۸۹۸)
’’قسم کھا کر اللہ پر کوئی بات لازم نہ کرو، کیونکہ جو ایسا کرے گا، اللہ اس کو جھوٹا کر دکھائے گا۔‘‘

قرض اور ودیعت کی واپسی

ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: العاریۃ موداۃ والمنحۃ مردودۃ والدین مقضی والزعیم غارم۔
(ترمذی، ۲۰۴۶)
’’عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کی جائے۔ دودھ پینے کے لیے جو جانور کسی نے دیا ہو، اسے لوٹایا جائے۔ لیا ہوا قرض ادا کیا جائے اور جس شخص (قرض کی واپسی کا) ضامن بنا ہو، وہ (مقروض کی طرف سے ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں) ذمہ دار ہوگا۔‘‘
(انس بن مالک (المقدسی، الاحادیث المختارۃ، ۲۱۴۷))

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس من کانت عندہ ودیعۃ فلیردہا الی من ائتمنہ علیہا۔
(مسند الرویانی، ۱۴۱۶۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۱۳۰۶)
’’اے لوگو! جس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہو، وہ اسے اس کو واپس کر دے جس نے اس کے پاس اسے امانت رکھا ہے۔‘‘