صدقہ و خیرات
صدقہ کی تلقین
حارث بن عمرو رضی اللہ عنہ: وامر بالصدقۃ فقال تصدقوا فانی لا ادری لعلکم لا ترونی بعد یومی ہذا۔
(طبرانی، المعجم الکبیر، ۳۳۵۱)
’’آپ نے صدقہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ صدقہ کرو، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ تم آج کے بعد مجھے دیکھ سکو گے یا نہیں۔‘‘
جمرۃ بنت قحافۃ رضی اللہ عنہا: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول فی حجۃ الوداع تصدقن ولو من حلیکن فانکن اکثر اہل النار فاتت زینب فقالت یا رسول اللہ ان زوجی محتاج فہل یجوز لی ان اعود علیہ قال نعم لک اجران۔
(المعجم الکبیر، ۲۴/۲۱۰، رقم ۵۳۸)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں فرماتے سنا کہ اے خواتین، صدقہ کرو، چاہے اپنے زیورات ہی اتار کر دے دو، کیونکہ اہل جہنم میں تمھاری تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پس (عبد اللہ بن مسعود کی اہلیہ) زینب آئیں اور کہا کہ یا رسول اللہ، میرا شوہر ضرورت مند ہے، تو کیا میرے لیے اس کو صدقہ دینا جائز ہے؟ آپ نے فرمایا، ہاں۔ تمھیں دوہرا اجر ملے گا۔‘‘
(کتب حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد اور زینب رضی اللہ عنہا کے استفسار کا محل ورود حجۃ الوداع کے بجائے مدینہ منورہ بیان ہوا ہے، جبکہ حجۃ الوداع کے موقع پر اس ہدایت کی تصریح ہمیں صرف مذکورہ روایت میں ملی ہے۔)
عقیقہ کے متعلق سوال
زید بن اسلم عن رجل عن ابیہ او عمہ: شہدت النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعرفۃ وسئل عن العقیقۃ فقال لا احب العقوق ومن ولد لہ ولد واحب ان ینسک عنہ فلینسک وسئل عن العتیرۃ فقال حق وسئل عن الفرع فقال حق ولیس ہو ان تذبحہ غراۃ من الغراء ولکن تمکنہ من مالک حتی اذا کان بن لبون او بن مخاض زخربا یعنی ذبحتہ وذلک خیر من ان تکفا اناء ک وتولہ ناقتک وتذبحہ یختلط لحمہ بشعرہ۔
(بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۹۱۲۵)
’’میں میدان عرفات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا۔ آپ سے عقیقہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں ’عقوق‘ کو پسند نہیں کرتا۔ جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو اور وہ اس کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ آپ سے عتیرہ (رجب میں کی جانے والی قربانی) کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ یہ درست ہے۔ آپ سے فرع (یعنی اونٹنی کے پہلے بچے کو ذبح کرنے) کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ یہ بھی درست ہے، لیکن اس کا طریقہ یہ نہیں کہ تم اسے (پیدا ہوتے ہی) ذبح کر دو جبکہ اس کی ماں کا دل اس کے ساتھ بندھا ہوا ہے، بلکہ تم اسے اپنے مال میں سے کھلاؤ پلاؤ یہاں تک کہ جب وہ ایک سال یا دو سال کا ہو جائے اور خوب پل جائے تو پھر اسے ذبح کرو۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے برتن کو انڈیل دو، اپنی اونٹنی کو (بچے کی جدائی کے غم میں) باؤلا کر دو اور بچے کو اس طرح ذبح کرو کہ اس کا گوشت اور اس کے بال آپس میں چپکے ہوئے ہوں۔‘‘