حج کے احکام و مسائل
حج کا مہینہ
ایہا الناس ان الزمان قد استدار کہیئتہ یوم خلق السماوات والارض فلا شہر ینسی ولا عدۃ تحصی الا وان الحج فی ذی الحجۃ الی یوم القیامۃ۔
(مسند الربیع بن حبیب البصری، ۴۲۲)
’’اے لوگو! زمانہ آج پھر اسی ترتیب پر واپس آ چکا ہے جو اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت مقرر کی تھی۔ اب نہ کوئی مہینہ بھلایا جائے گا اور نہ مہینوں کی گنتی رکھنا پڑے گی۔ آگاہ رہو! اب قیامت تک حج ذو الحجہ کے مہینے میں ہی ادا کیا جائے گا۔‘‘
حج اکبر کا دن
محمد بن قیس بن مخرمۃ: خطب یوم عرفۃ فقال ہذا یوم الحج الاکبر۔
(بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۳۰۴)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے روزہ خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ یہ حج اکبر کا دن ہے۔‘‘
(مرۃ الطیب عن رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم (مسند احمد، ۱۵۳۲۲))
عبد العزیز بن عبد اللہ بن خالد بن اسید: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم عرفۃ: الیوم الذی یعرف الناس فیہ۔
(بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۶۰۹۔ سنن الدارقطنی، ۲/۲۲۳)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے دن فرمایا کہ آج وہ دن ہے جس میں لوگ عرفات میں ٹھہریں گے۔‘‘
احرام کا لباس
ابن عباس رضی اللہ عنہ: سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب بعرفات من لم یجد النعلین فلیلبس الخفین ومن لم یجد ازارا فلیلبس سراویل للمحرم۔
(بخاری، ۱۷۱۰)
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ حالت احرام میں جسے چپل نہ میسر ہوں، وہ موزے پہن لے اور جس کے پاس تہ بند نہ ہو، وہ سلی ہوئی شلوار پہن سکتا ہے۔‘‘
میقات کا تقرر
حارث بن عمرو رضی اللہ عنہ: ووقت یلملم لاہل الیمن ان یہلوا منہا وذات عرق لاہل العراق او قال لاہل المشرق۔
(طبرانی، المعجم الکبیر، ۳۳۵۱)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف سے آنے والوں کے لیے یلملم کو اور عراق کی طرف سے آنے والوں کے لیے ذات عرق کو میقات مقرر کیا کہ وہ وہاں سے احرام باندھ لیں۔‘‘
عرفات کا وقوف
زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو بعرفۃ یقرا ہذہ الآیۃ شہد اللہ انہ لا الہ الا ہو والملئکۃ واولو العلم قائما بالقسط لا الہ الا ہو العزیز الحکیم وانا علی ذلک من الشاہدین۔
(مسند احمد، ۱۳۴۷)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفہ میں یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: شہد اللہ انہ لا الہ الا ہو والملئکۃ واولو العلم قائما بالقسط لا الہ الا ہو العزیز الحکیم (اللہ بھی گواہی دیتا ہے اور فرشتے اور اہل علم بھی کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ انصاف پر قائم ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ غالب اور حکمت والا ہے) رسول اللہ نے فرمایا کہ میں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں۔‘‘
وقوف عرفات کی حد
مسور بن مخرمۃ رضی اللہ عنہ: (خطبنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعرفۃ فحمد اللہ واثنی علیہ ثم قال اما بعد) ان اہل الجاہلیۃ کانوا یدفعون من عرفۃ حین تکون الشمس کانہا عمائم الرجال فی وجوہہم قبل ان تغرب ومن المزدلفۃ بعد ان تطلع الشمس حین تکون کانہا عمائم الرجال فی وجوہہم وانا لا ندفع من عرفۃ حتی تغرب الشمس وندفع من المزدلفۃ قبل ان تطلع الشمس ہدینا مخالف لہدی اہل الاوثان والشرک۔
(مسند الشافعی، ۱/۳۶۹۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۳۰۴)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں میدان عرفات میں خطبہ دیا اور اللہ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اہل جاہلیت عرفہ سے سورج کے غروب ہونے سے قبل اس وقت روانہ ہو جاتے تھے جب سورج اس طرح نمایاں ہوتا جیسے مردوں (کے سروں پر ان) کی پگڑیاں ہوتی ہیں، اور مزدلفہ سے سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اس وقت روانہ ہو جاتے تھے جب سورج طلوع ہو کر اس طرح نمایاں ہوچکا ہوتا جیسے مردوں (کے سروں پر ان) کی پگڑیاں ہوتی ہیں، لیکن ہم عرفہ سے اس وقت تک روانہ نہیں ہوں گے جب تک سورج غروب نہ ہو جائے، اور مزدلفہ سے سورج کے طلوع ہونے سے قبل روانہ ہو جائیں گے۔ ہمارا طریقہ بت پرستوں اور اہل شرک کے طریقے کے خلاف ہے۔‘‘
عرفات میں ظہر اور عصر کو جمع کرنا
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ: غدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من منی حین صلی الصبح صبیحۃ یوم عرفۃ حتی اتی عرفۃ فنزل بنمرۃ وہی منزل الامام الذی ینزل بہ بعرفۃ حتی اذا کان عند صلاۃ الظہر راح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہجرا فجمع بین الظہر والعصر ثم خطب الناس۔
(ابو داؤد، رقم ۱۶۳۴)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یوم عرفہ (۹ ذو الحجہ) کو صبح کی نماز ادا کر لی تو آپ منیٰ سے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ میدان عرفات میں پہنچ گئے۔ آپ نے نمرہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا جو عرفہ میں امام کے قیام کرنے کی جگہ ہے۔ جب ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے ذرا جلدی روانہ ہوئے، ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی ادا کی اور پھر لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا۔‘‘
عرفات کا روزہ
ام الفضل رضی اللہ عنہا: انہم شکوا فی صوم النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم عرفۃ فارسلت الیہ بلبن فشرب وہو یخطب الناس بعرفۃ علی بعیرہ۔
(مسند احمد، ۲۵۶۴۷۔ مسند اسحاق بن راہویہ (۴۔۵) ۱/۲۶۷)
’’لوگوں کو عرفہ کے دن شک ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہیں یا نہیں، تو ام الفضل نے آپ کے لیے دودھ بھیجا جسے آپ نے نوش فرمایا جبکہ آپ اپنے اونٹ پر سوار میدان عرفات میں لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے۔‘‘
یوم عرفات، مغفرت کا دن
عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم عرفۃ ایہا الناس ان اللہ تطول علیکم فی ہذا الیوم فیغفر لکم الا التبعات فی ما بینکم ووہب مسیئکم لمحسنکم واعطی محسنکم ما سال اندفعوا بسم اللہ۔
(مصنف عبد الرزاق، ۸۸۳۱)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے دن فرمایا کہ اے لوگو! آج کے دن اللہ تعالیٰ نے تم پر خاص عنایت فرمائی ہے اور تمھارے گناہ بخش دیے ہیں، سوائے ان حق تلفیوں کے جو تم نے آپس میں ایک دوسرے کی کی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ تم میں سے خطا کاروں کو تم میں سے نیکو کاروں کے حوالے کر دیا ہے اور نیکو کاروں نے جو مانگا ہے، وہ انھیں عطا کر دیا ہے۔ اللہ کا نام لے کر روانہ ہو جاؤ۔‘‘
ام الحصین رضی اللہ عنہا: سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعرفات یخطب یقول غفر اللہ للمحلقین ثلاث مرار قالوا والمقصرین فقال والمقصرین فی الرابعۃ۔
(مسند احمد، ۲۶۰۰۳)
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے سنا۔ آپ فرما رہے تھے کہ اللہ سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرمائے۔ آپ نے یہ دعا تین مرتبہ مانگی۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ، بال کٹوانے والوں کے لیے بھی دعا کیجیے۔ آپ نے چوتھی مرتبہ کہا کہ یا اللہ، بال کٹوانے والوں کی بھی مغفرت فرما۔‘‘
جمرات کی رمی
حرملۃ بن عمرو رضی اللہ عنہ: حججت حجۃ الوداع مردفی عمی سنان بن سنۃ قال فلما وقفنا بعرفات رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واضعا احدی اصبعیہ علی الاخری فقلت لعمی ماذا یقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال یقول ارموا الجمرۃ بمثل حصی الخذف۔
(مسند احمد، ۱۸۲۴۳)
’’میں حجۃ الوداع میں شریک تھا اور میرے چچا سنان بن سنۃ نے مجھے (سواری پر) اپنے پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ جب میں عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنی ایک انگلی دوسری انگلی پر رکھی ہوئی ہے۔ میں نے اپنے چچا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ آپ فرما رہے ہیں کہ جمرات پر اتنے چھوٹے کنکروں سے رمی کرو جو دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکے جا سکیں۔‘‘
عبد الرحمن بن معاذ التیمی رضی اللہ عنہ: نحن بمنی قال ففتحت اسماعنا حتی ان کنا لنسمع ما یقول ونحن فی منازلنا قال فطفق یعلمہم مناسکہم حتی بلغ الجمار فقال بحصی الخذف ووضع اصبعیہ السبابتین احداہما علی الاخری۔
(ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ۲/۱۸۵)
’’ہم منیٰ میں تھے کہ ہماری شنوائی تیز ہو گئی، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ جو فرما رہے تھے، ہم اپنے اپنے ٹھکانوں میں بیٹھے اس کو سن رہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو حج کے مناسک کی تعلیم دینے لگے، یہاں تک کہ جب آپ جمرات تک پہنچے تو فرمایا کہ اتنے چھوٹے کنکروں سے رمی کرو جو دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکے جا سکیں۔ آپ نے (چھوٹے کنکر کا حجم بتانے کے لیے) اپنی دوانگلیوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھا۔‘‘
اسامۃ بن شریک: سالہ رجل نسی ان یرمی الجمار فقال ارم ولا حرج ثم اتاہ آخر فقال یا رسول اللہ نسیت الطواف فقال طف ولا حرج ثم اتاہ آخر حلق قبل ان یذبح فقال اذبح ولا حرج (ان اللہ عز وجل وضع الحرج الا من اقترض امرا مسلما ظلما او قال بظلم فذلک حرج وہلک)۔
(صحیح ابن خزیمہ، ۲۲۹۵۔ المعجم الکبیر، ۴۸۲، ۴۸۴۔ حجۃ الوداع، ۱۹۱، ۱/۲۱۵)
’’ایک شخص نے جو جمرات پر رمی کرنا بھول گیا تھا، آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ، میں طواف کرنا بھول گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔ پھر ایک اور شخص آیا جس نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوا لیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں حرج اور گناہ نہیں رکھا، ہاں جو شخص کسی مسلمان پر زیادتی کرتے ہوئے اس کی عزت کو پامال کرے گا، حقیقت میں وہی حرج میں پڑے گا اور برباد ہوگا۔‘‘
(عبد اللہ ابن عباس (ابو داؤد، ۱۷۲۲))
رجب کی قربانی
نبیشۃ بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: نادی رجل وہو بمنی فقال یا رسول اللہ انا کنا نعتر عتیرۃ فی الجاہلیۃ فی رجب فما تامرنا یا رسول اللہ قال اذبحوا فی ای شہر ما کان وبروا اللہ عزوجل واطعموا قال انا کنا نفرع فرعا فما تامرنا قال فی کل سائمۃ فرع تغذوہ ماشیتک حتی اذا استحمل ذبحتہ وتصدقت بلحمہ۔
(نسائی، السنن الصغریٰ، ۴۱۵۶)
’’ایک شخص نے منیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا اور کہا یا رسول اللہ! ہم جاہلیت کے زمانے میں رجب کے مہینے میں ایک جانور قربان کیا کرتے تھے، پس اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جس مہینے میں چاہو، قربانی کرو اور اللہ کے ساتھ وفاداری کا اظہار کر و اور (قربانی کا گوشت) لوگوں کو کھلاؤ۔ اس نے کہا کہ ہم اونٹنی کے پہلے بچے کو بھی ذبح کیا کرتے تھے، تو اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: (صرف اونٹنی میں نہیں، بلکہ) ہر چرنے والے جانور کے پہلے بچے کو (اللہ کے نام پر) ذبح کرنا درست ہے، (لیکن اسے پیدا ہوتے ہی ذبح نہ کرو، بلکہ) تمھارے مواشی اس کو دودھ پلائیں، یہاں تک کہ جب وہ سواری کے قابل ہو جائے تو تم اسے ذبح کرو اور اس کا گوشت صدقہ کر دو۔‘‘
حبیب بن مخنف رضی اللہ عنہ: انتہیت الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم عرفۃ قال وہو یقول ہل تعرفونہا قال فما ادری ما رجعوا علیہ قال فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی کل بیت ان یذبحوا شاۃ فی کل رجب وکل اضحی شاۃ۔
(مسند احمد، ۱۹۸۰۴۔ مصنف عبد الرزاق، ۸۱۵۹)
’’میں عرفہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو آپ فرما رہے تھے کیا تم اس کو جانتے ہو؟ مجھے نہیں معلوم کہ لوگوں نے کیا جواب دیا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر اہل خانہ پر لازم ہے کہ وہ رجب کے مہینے میں ایک بکری ذبح کریں، اور ہر قربانی ایک بکری کی ہونی چاہیے۔‘‘
مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس علی کل اہل بیت فی کل عام اضحیۃ وعتیرۃ ہل تدرون ما العتیرۃ ہی التی تسمونہا الرجبیۃ۔
(ترمذی، ۱۴۳۸)
’’اے لوگو! ہر اہل خانہ پر ہر سال ایک قربانی اور ایک عتیرہ لازم ہے۔ (راوی کہتا ہے کہ) کیا تم جانتے ہو کہ عتیرہ کیا ہے؟ یہ وہی ہے جس کو تم رجب کی قربانی کہتے ہو۔‘‘
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سئل عنہا یوم عرفۃ فقال ہی حق یعنی العتیرۃ۔
(المعجم الاوسط، ۶۲۳۰)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرفہ کے دن عتیرہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ حق ہے۔‘‘
حرمت کے مہینے
عم ابی حرۃ الرقاشی رضی اللہ عنہ: الا وان الزمان قد استدار کہیئتہ یوم خلق اللہ السموات والارض ثم قرا ان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السموات والارض منہا اربعۃ حرم ذلک الدین القیم فلا تظلموا فیہن انفسکم۔
(مسند احمد، ۱۹۷۷۴)
’’آگاہ رہو! زمانہ آج پھر اسی ترتیب پر واپس آ چکا ہے جو اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت مقرر کی تھی۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’ان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السموات والارض منہا اربعۃ حرم ذلک الدین القیم فلا تظلموا فیہن انفسکم‘۔ (اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے، جو اس دن سے اس کی کتاب میں درج ہے جب اس نے زمین وآسمان کو پیداکیا۔ ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ یہی صحیح اور راست دین ہے، اس لیے ان مہینوں میں (حدود سے تجاوز کر کے) اپنی جانوں پر ظلم نہ ڈھاؤ۔‘‘
(ابوبکرہ (بخاری ۴۰۵۴) ابو ہریرہ (تفسیر الطبری، ۱۰/۱۲۵۔ بزار، مجمع الزوائد ۳/۲۶۸) ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۹)
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ: ایہا الناس ان النسئ زیادۃ فی الکفر یضل بہ الذین کفروا یحلونہ عاما ویحرمونہ عاما لیواطؤا عدۃ ما حرم اللہ فیحلوا ما حرم اللہ ویحرموا ما احل اللہ ان الزمان قد استدار فہو الیوم کہیئتہ یوم خلق اللہ السموات والارض وان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السماوات والارض منہا اربعۃ حرم رجب مضر بین جمادی وشعبان وذو القعدۃ وذو الحجۃ والمحرم وان النسئ زیادہ فی الکفر یضل بہ الذین کفروا یحلونہ عاما ویحرمونہ عاما لیوطؤا عدۃ ما حرم اللہ۔
(مسند عبد بن حمید، ۸۵۸)
’’اے لوگو! حرام مہینوں کو آگے پیچھے کرنا کفر میں مزید آگے بڑھنا ہے جس کے ذریعے سے اہل کفر (لوگوں کو) گمراہ کرتے ہیں۔ وہ اللہ کے حرام کردہ مہینوں کی گنتی کو پورا رکھنے کے لیے ایک سال کسی مہینے کو حلال قرار دیتے ہیں اور ایک سال حرام، اور اس طرح اللہ کے حرام کردہ مہینے کو حلال اور اللہ کے حلال کردہ مہینے کو حرام کر دیتے ہیں۔ زمانہ آج پھر اسی ترتیب کے مطابق ہو چکا ہے جو اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت مقرر کی تھی۔ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے، جو اس دن سے اس کی کتاب میں درج ہے جب اس نے زمین وآسمان کو پیداکیا۔ ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ ایک رجب کا مہینہ جو جمادیٰ اخریٰ اور شعبان کے درمیان آتا ہے، اور ذو القعدہ، ذو الحجۃ اور محرم۔ حرام مہینوں کی ترتیب کو آگے پیچھے کرنا کفر میں مزید آگے بڑھنا ہے جس کے ذریعے سے اہل کفر (لوگوں کو) گمراہ کرتے ہیں۔ وہ اللہ کے حرام کردہ مہینوں کی گنتی کو پورا رکھنے کے لیے ایک سال کسی مہینے کو حلال قرار دیتے ہیں اور ایک سال حرام۔‘‘
عرفات کے خطبے کے بارے میں متفرق روایات
حارث بن عمرو رضی اللہ عنہا: انہ لقی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع وہو علی ناقتہ العضباء (وہو بمنی او بعرفات ویجئ الاعراب فاذا راوا وجہہ قالوا ہذا وجہ مبارک) (وکان الحارث رجلا جسیما فنزل الیہ الحارث فدنا منہ حتی حاذی وجہہ برکبۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاہوی نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمسح وجہ الحارث فما زال نضرۃ علی وجہ الحارث حتی ہلک) فاتیتہ من احد شقیہ فقلت یا رسول اللہ بابی انت وامی استغفر لی فقال غفر اللہ لکم ثم اتیتہ من الشق الآخر ارجو ان یخصنی دونہم فقلت یا رسول اللہ استغفر لی فقال بیدہ غفر اللہ لکم (فذہب یبزق فقال بیدہ فاخذ بہا بزاقہ فمسح بہ نعلہ کرہ ان یصیب احدا ممن حولہ) فقال رجل من الناس یا رسول اللہ العتائر والفرائع قال من شاء عتر ومن شاء لم یعتر ومن شاء فرع ومن شاء لم یفرع، فی الغنم اضحیتہا وقبض اصابعہ الا واحدۃ (وفی روایۃ: وقال باصبع کفہ الیمنی فقبضہا کانہ یعقد عشرۃ ثم عطف الابہام علی مفصل الاصبع الوسطی ومد اصبعہ السبابۃ وعطف طرفہا یسرا یسرا)۔
(نسائی، ۴۱۵۴۔ مسند احمد، ۱۵۴۰۵۔ طبرانی، المعجم الکبیر، ۳۳۵۱، ۳۳۵۲۔ الآحاد والمثانی، ۱۲۵۷)
’’حجۃ الوداع کے موقع پر حارث بن عمرو کی ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی اور آپ اپنی اونٹنی عضباء پر سوار تھے۔ آپ منیٰ یا عرفات میں تھے اور بدو لوگ آتے اور جب آپ کا چہرہ دیکھتے تو کہتے کہ یہ تو بہت مبارک چہرہ ہے۔ حارث بھاری جسم کے آدمی تھے، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئے، یہاں تک کہ ان کا چہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے کے برابر آ گیا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھک کر حارث کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور اس کی برکت سے وفات تک حارث کے چہرے پر تروتازگی قائم رہی۔ حارث کہتے ہیں کہ میں ایک طرف سے آپ کے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرے لیے مغفرت کی دعا کیجیے۔آپ نے فرمایا: اللہ تم سب کی مغفرت کرے۔ پھر میں اس امید پر دوسری طرف سے آیا کہ آپ خاص طور پر میرے لیے دعا کریں۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرے لیے مغفرت کی دعا کیجیے۔ آپ نے فرمایا: اللہ تم سب کی مغفرت کرے۔ آپ نے تھوک پھینکنا چاہی تو اس خدشے سے کہ اردگرد موجود لوگوں میں سے کسی پر جا پڑے گی، آپ نے اپنے ہاتھ میں تھوک پھینک کر اسے اپنے جوتوں کے ساتھ صاف کر دیا۔ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! عتیرہ اور فرع کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا جو چاہے، عتیرہ کی قربانی کرے اور جو چاہے نہ کرے۔ اور جو چاہے، اونٹنی کے پہلے بچے کو قربان کرے اور جو چاہے نہ کرے۔ بکریوں میں بس ایک (عید الاضحیٰ) کی قربانی ہی لازم ہے۔ آپ نے ایک انگلی کے علاوہ ہاتھ کی باقی انگلیاں بند کر لیں۔ (ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کی ایک انگلی کو یوں بند کر لیا جیسے دس کا عدد بنا رہے ہوں۔ پھر انگوٹھے کو درمیانی انگلی کے جوڑ پر رکھ دیا اور شہادت کی انگلی کو کھڑا کر کے اس کے کنارے کو تھوڑا سا ٹیڑھا کر لیا۔)‘‘
نبیط بن شریط رضی اللہ عنہ: رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخطب علی جمل احمر بعرفۃ قبل الصلاۃ۔
(نسائی، ۲۹۵۷)
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ عرفہ میں نماز سے قبل ایک سرخ اونٹ پر سوار خطبہ دے رہے تھے۔‘‘
خالد بن العذاء بن ہوذۃ رضی اللہ عنہ: رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخطب الناس یوم عرفۃ علی بعیر قائم فی الرکابین۔
(ابو داؤد، ۱۶۳۸)
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ یوم عرفہ کو ایک اونٹ پر اس کی دونوں رکابوں میں پاؤں جما کر کھڑے تھے اور خطبہ دے رہے تھے۔‘‘
عبادۃ بن عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ: قال کان ربیعۃ بن امیۃ بن خلف الجمحی ہو الذی یصرخ یوم عرفۃ تحت لبۃ ناقۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصرخ وکان صیتا۔
(المعجم الکبیر، ۴۶۰۳)
’’یوم عرفہ کو ربیعہ بن امیہ بن خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے سینے کے نیچے کھڑے (آپ کے کلمات کو) بلند آواز سے دہرا رہے تھے۔ ان کی آواز بہت بلند تھی اور آپ نے ان سے کہا تھا کہ اونچی آواز سے (یہ کلمات) کہو (جو میں کہہ رہا ہوں)‘‘۔
یقول لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قل یا ایہا الناس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ....۔
(ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ ۶/۱۰)
’’آپ ربیعہ سے کہتے کہ کہو: اے لوگو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ...‘‘۔
(ابن عباس (المعجم الکبیر، ۱۱۳۹۹۔ صحیح ابن خزیمہ، ۲۹۲۷))
منٰی کے خطبے کے بارے میں متفرق روایات
رافع بن عمرو المزنی رضی اللہ عنہ: ونبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخطب الناس علی بغلۃ شہباء وعلی یعبر عنہ یوم النحر حتی ارتفع الضحی بمنی۔
(نسائی، السنن الکبریٰ، ۴۰۹۴۔ الآحاد والمثانی، ۱۰۹۶۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۴۰۰)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر (۱۰ ذو الحجہ) کو منیٰ میں ایک سفید خچر پر سوار لوگوں کو خطاب کر رہے تھے اور علی رضی اللہ عنہ آپ کی بات کو لوگوں تک پہنچا رہے تھے، یہاں تک کہ دن خوب چڑھ گیا۔ ‘‘
عم ابی حرۃ الرقاشی رضی اللہ عنہ: کنت آخذا بزمام ناقۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی اوسط ایام التشریق اذود عنہ الناس۔
(مسند احمد، ۱۹۷۷۴)
’’ایام التشریق کے وسط میں (یعنی ۱۰ ذو الحجہ کو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی نکیل تھام رکھتی تھی اور میں لوگوں کو آپ سے پرے ہٹا رہا تھا۔‘‘
ابو کاہل عبد اللہ بن مالک رضی اللہ عنہ: رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخطب علی ناقۃ آخذ بخطامہا عبد حبشی۔
(نسائی، السنن الکبریٰ، ۴۰۹۶)
’’میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹنی پر سوار لوگوں کو خطبہ دے رہے ہیں اور اونٹنی کی نکیل ایک حبشی غلام نے پکڑ رکھی ہے۔‘‘
سلمۃ بن نبیط الاشجعی رضی اللہ عنہ: ان اباہ قد ادرک النبی صلی اللہ علیہ وسلم وکان ردفا خلف ابیہ فی حجۃ الوداع قال فقلت یا ابت ارنی النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال قم فخذ بواسطۃ الرحل قال فقمت فاخذت بواسطۃ الرحل فقال انظر الی صاحب الجمل الاحمر الذی یؤمی بیدہ فی یدہ القضیب۔
(مسند احمد، ۱۷۹۷۶)
’’نبیط اشجعی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ حجۃ الوداع میں اپنے والد کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اے ابا جان، مجھے دکھائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سے ہیں؟ والد نے کہا کہ اٹھ کر پالا ن کے اگلے حصے کو پکڑ لو۔ پس میں اٹھا اور میں نے پالان کے اگلے حصے کو پکڑ لیا۔ پھر انھوں نے کہا کہ اس شخص کو دیکھو جو سرخ اونٹ پر سوار ہے اور اس کے ہاتھ میں چھڑ ی پکڑی ہوئی ہے اور وہ ہاتھ کے اشارے سے (گفتگو کر) رہا ہے۔‘‘
ام الحصین رضی اللہ عنہا: رمی جمرۃ العقبۃ ثم انصرف فوقف الناس وقد جعل ثوبہ من تحت ابطہ الایمن علی عاتقہ الایسر قال فرایت تحت غضروفہ الایمن کہیءۃ جمع (فانا انظر الی عضلۃ عضدہ ترتج)۔
(صحیح ابن حبان، ۴۵۶۴۔ ترمذی، ۱۶۲۸)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ پررمی کی، پھر واپس آئے اور لوگوں کوروک لیا۔ آپ نے اپنی چادر اپنی دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر اپنے بائیں کندھے پر ڈال رکھی تھی۔ پس میں نے دیکھا کہ آپ کے دائیں (کندھے کی) نرم ہڈی کے نیچے مٹھی کی طرح (گوشت کا) ایک ابھار ہے، اور میں دیکھ رہی تھی کہ آپ کے بازو کے عضلات (حرکت کی وجہ سے) پھڑک رہے ہیں۔‘‘
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: وہو علی ناقتہ الجدعاء قد ادخل رجلیہ فی الغرز ووضع احدی یدیہ علی مقدم الرحل والاخری علی موخرہ یتطاول بذلک۔
(المعجم الکبیر، ۷۶۷۶۔ مسند احمد، ۲۱۱۴۰)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی، جدعا پر سوار تھے، آپ نے دونوں پاؤں رکاب میں جما رکھے تھے اور آپ کا ایک ہاتھ پالان کے اگلے حصے پر جبکہ دوسرا اس کے پچھلے حصے پر رکھا ہوا تھا۔ اس طرح آپ (اونچے ہو کر) لوگوں کو نمایاں دکھائی دینے کی کوشش کر رہے تھے۔‘‘
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: لما کان فی حجۃ الوداع قام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو یومئذ مردف الفضل بن عباس علی جمل آدم۔
(مسند احمد، ۲۱۲۵۹۔ المعجم الکبیر، ۷۸۹۸)
’’حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ کے لیے) ایک گندمی رنگ کے اونٹ پر کھڑے ہوئے اور آپ کے پیچھے فضل بن عباس بیٹھے ہوئے تھے۔‘‘
جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ فی حجۃ الوداع استنصت الناس۔
(بخاری، ۱۱۸، ۴۰۵۳)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر جریر بن عبد اللہ سے کہا کہ لوگوں کو چپ کراؤ۔‘‘
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم بینا ہو یخطب یوم النحر فقام الیہ رجل فقال کنت احسب یا رسول اللہ ان کذا وکذا قبل کذا وکذا ثم قام آخر فقال کنت احسب یا رسول اللہ ان کذا وکذا قبل کذا وکذا لہولاء الثلاث فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم افعل ولا حرج۔
(بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۳۹۳)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر کو خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آپ کے پا س آیا اور کہا کہ یارسول اللہ، میں سمجھا کہ حج کا فلاں عمل فلاں عمل سے پہلے کرنا ہے۔ پھر ایک اور شخص اٹھا اور اس نے بھی کہا کہ یا رسول اللہ، میں سمجھا کہ حج کا فلاں عمل فلاں عمل سے پہلے کرنا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔‘‘