روز آخرت
قیامت کا سوال و جواب
ابوبکرۃ نفیع بن الحارث رضی اللہ عنہ: وستلقون ربکم فیسالکم عن اعمالکم الا فلا ترجعوا بعدی ضلالا یضرب بعضکم رقاب بعض۔
(بخاری ۴۰۵۴)
’’اور جلد ہی تمھاری اپنے رب سے ملاقات ہوگی اور وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ آگاہ رہو! میرے بعد دوبارہ گمراہی کی طرف نہ پلٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارتے رہو۔‘‘
(جریر بن عبد اللہ (بخاری، ۱۱۸) ابن عباس (بخاری، ۱۶۲۳) ابن عمر (بخاری، ۳۰۵۱) عداء بن خالد الکلابی (مسند احمد، ۱۹۴۴۷) عبد الاعلیٰ بن عبد اللہ (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۳) حذیفۃ بن الیمان (المعجم الاوسط، ۴۱۶۶) عبد اللہ بن مسعود (بزار ورجالہ رجال الصحیح، مجمع الزوائد ۶/۲۸۳) حجیر (مسند الحارث (زوائد الہیثمی)، ۲۷۔ الآحاد والمثانی، ۱۶۸۲) ابو غادیۃ (ابن سعد ۲/۱۸۴))
رسول اللہؐ کی شفاعت
جریر بن الارقط رضی اللہ عنہ: رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع فسمعتہ یقول اعطیت الشفاعۃ۔
(ابن حجر، الاصابۃ، ۱۱۳۶۔ وقال: رواہ بن مندۃ من طریق یعلی بن الاشدق وہو متروک عنہ)
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں یہ فرماتے سنا کہ مجھے (اپنی امت کے لیے) شفاعت کا حق دیا گیا ہے۔‘‘
(حجۃ الوداع کے موقع کی تصریح کے بغیر یہ روایت ’اعطیت الشفاعۃ وہی نائلۃ من لا یشرک باللہ شیئا‘ کے الفاظ سے ابو جعفر سے مصنف ابن ابی شیبہ (رقم ۳۱۷۴۲) میں اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ابن ابی عاصم کی ’السنۃ‘ (رقم ۸۰۳) میں مروی ہے۔)
حوض کوثر
مرۃ عن رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الا وانی فرطکم علی الحوض انظرکم وانی مکاثر بکم الامم فلا تسودوا وجہی الا وقد رایتمونی وسمعتم منی وستسالون عنی فمن کذب علی فلیتبوا مقعدہ من النار الا وانی مستنقذ رجالا او اناثا ومستنقذ منی آخرون فاقول یا رب اصحابی فیقال انک لا تدری ما احدثوا بعدک۔
(مسند احمد، ۲۲۳۹۹۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۴۰۹۹)
’’آگاہ رہو! میں تم سب سے پہلے حوض پر پہنچ کر تمھارا منتظر ہوں گا۔ اور میں تمھارے ذریعے سے دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت ظاہر کروں گا، اس لیے مجھے رسوا نہ کرنا۔ سنو، تم نے مجھے دیکھا بھی ہے اور میری باتیں بھی سنی ہیں۔ اور تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پس جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا، اس نے اپنا ٹھکانہ آگ میں بنا لیا۔ سنو، (قیامت کے دن) کچھ لوگوں کو میں (اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے) بچا لوں گا لیکن کچھ لوگوں کو مجھ سے چھین لیا جائے گا۔ میں کہوں گا کہ یا اللہ، یہ میرے ساتھی ہیں تو کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انھوں نے کیسی کیسی بد اعمالیاں انجام دیں۔‘‘
(عبد اللہ بن مسعود (ابن ماجہ، ۳۰۴۸) ابو امامہ باہلی (مسند الشامیین، ۱۲۴۲۔ المعجم الکبیر، ۷۶۳۲))
اصل بھلائی
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطب بعرفات فلما قال لبیک اللہم لبیک قال انما الخیر خیر الآخرۃ۔
(بیہقی، السنن الکبریٰ، ۸۸۱۶)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں خطبہ دیا۔ جب آپ ’لبیک اللہم لبیک‘ کہہ چکے تو فرمایا کہ اصل بھلائی تو آخرت ہی کی بھلائی ہے۔‘‘